انہونی بھی ہو جاتی ہے
ہونی یوں ہی ہوتے ہوتے رہ جاتی ہے
اونچے نیچے ہو جاتے ہیں
ڈوبنے والے دریا پار اتر جاتے ہیں
اور تیرا اک سمندر کے ساحل پر ڈوب کے مر جاتے ہیں
کچھ ایسے ہیں جن کی ہر خواہش حسرت میں ڈھل جاتی ہے
کچھ ایسے ہیں جو اک خواہش حسرت ہی میں مر جاتے ہیں
کس کے نصیب میں کیا ہے کون کدھر جائے گا
کس کی قسمت اچھی کون بری پائے گا
سچی باتیں کرنے والے کیوں سولی پر چڑھ جاتے ہیں
جھوٹے شاہی کر جاتے ہیں
صبح کے بھولے شام کو گھر واپس نہیں آتے
شام کے بھولے صبح کو واپس آ جاتے ہیں
جھوٹ اور سچ کا خیر اور شر کا
کچھ معیار تو رکھا ہوگا
جس نے دنیا قائم کی ہے
اس نے کچھ تو سوچا ہوگا

نظم
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
فیاض تحسین