آزادؔ! ذرا دیکھ تو یہ عالم ارژنگ
موسم کے یہ انداز بہاروں کے یہ نیرنگ
یہ حسن، یہ ترتیب، یہ تزئین یہ آہنگ
دامان خرد چاک ہے دامان نظر تنگ
ہر ذرہ ہے دامن میں لیے طور کی دنیا
ہر بات میں اک بات ہے ہر رنگ میں سو رنگ
اے روح بشر! تجھ سے ہیں دونوں متکلم
سبزے کی خموشی ہے کہ جھرنوں کا ہے آہنگ
اب چھوڑ بھی افسردگی اپنی دل ناداں
اب پھول بھی ہو کھل کے تو اے غنچۂ دل تنگ
ہر شے سے ہویدا ہے جھلک حسن ازل کی
ذرہ ہے کہ تارہ ہے شگوفہ ہے کہ ہے سنگ
سب عکس ترے عکس ہیں اے صورت پنہاں
سب رنگ ترے رنگ ہیں اے ہستی بے رنگ
اے دیکھنے والو! یہ ذرا بات تو دیکھو
پتے ہیں شفق رنگ تو پتھر ہیں سمن رنگ
سب کچھ یہ بجا ہے مگر اے حسن گریزاں
اے تو کہ تری چال پہ قرباں جمن و گنگ
اس راہ میں گر ساتھ ترا ہو نہ میسر
لدر فقط آواز ہے گل مرگ فقط رنگ
نظم
سیر کشمیر کا ایک تأثر
جگن ناتھ آزادؔ