ایک بجلی کے کھمبے تلے
کتنے زندہ بچے
اور کتنے جلے
کس کو معلوم ہو
کیسے معلوم ہو
کوئی ان کا شریک شب غم نہ تھا
شام سے تا سحر
اپنے انجام سے بے خبر
آتش سوز پنہاں میں جلتے رہے
رقص کرتے رہے
صبح ہونے سے پہلے
سیہ رات کے قافلے
سرد لاشوں کے انبار کو آ کے بکھرا گئے
شکستہ پروں کو ہواؤں کے جھونکے نہ جانے کدھر کو اڑا لے گئے
کس کو معلوم ہو
کیسے معلوم ہو
آتش سوز پنہاں میں کتنے جلے
کتنے زندہ بچے
نظم
سحر ہونے تک
فرید عشرتی