تھکا ہارا بے جان بادل کا ٹکڑا
درختوں چٹانوں سے دامن بچاتا
پہاڑی کے کوہان سے نیچے اترا
بہت تھک چکا تھا
ہزاروں برس کی مسافت
ہزاروں برس تک بس اک دھن مسلط
بڑھے آگے بڑھ کر
پہاڑوں درختوں نکیلی چٹانوں
ہوا کی نہتی سسکتی ہوئی
کرب میں ڈوبی چیخوں کو
مٹھی میں لے کر مسل کر
بڑی سادگی سے ہنسے مسکرائے
وہ دھن اب کہاں ہے
وہ ننھی سی معصوم سی مسکراہٹ
خمیدہ لبوں سے پھسل کر
حسیں اوس کے شوخ قطرے کے مانند
اب خاک پر گر چکی ہے
تھکا ہارا بے جان بادل کا ٹکڑا
درختوں چٹانوں سے دامن بچاتا
پہاڑی کے کوہان سے دم بہ دم
گہرے پر ہول کھڈ میں اگر جا رہا ہے
تو کیا ہے
یہ بادل کا ٹکڑا بہت تھک چکا ہے
بہت تھک چکا ہے
نظم
سفر
وزیر آغا