EN हिंदी
سفر | شیح شیری
safar

نظم

سفر

فضل تابش

;

رات جب ہر چیز کو چادر اڑھا دے
ڈھانپ لے کالے پروں میں

آگ لپٹوں سی زبانیں
اژدھے جب اپنے اندر بند کر لیں

تب اسی کالے سمے میں
تم گھروں کی قبر سے باہر نکلنا

اور بستی کے کنارے
خواب میں خاموش بہتے آدمی سے

آ کے مجھ کو ڈھونڈھنا
میں وہیں تم سب سے کچھ آگے ملوں گا

اور اندھیرا سا تمہارے آگے آگے میں چلوں گا
روشنی لے کر چلوں گا تو مجھے

تم سے بھی پہلے اور کوئی ڈھونڈھ لے گا