زندگی کون سی منزل پہ رکی ہے آ کر
آگے چلتی بھی نہیں
راہ بدلتی بھی نہیں
سست رفتار ہے یہ دور عبوری کتنا
سخت و بے جان ہے وہ پیکر نوری کتنا
چاند اک خواب جو تھا
شہر امید تہہ آب جو تھا
حسن کے ماتھے کا ننھا ٹیکا
پائے آدم کے تلے آتے ہی
اترے چہرے کی طرح ہو گیا کتنا پھیکا
ہم جنوں کیش و طرح دار ہمیشہ کے جو تھے
بھاگتے سایوں کے پیچھے دوڑے
داہنے بائیں جو ڈالیں نظریں
ہو کے بے کیف ہٹا لیں نظریں
موت افلاس جفا عیاری
بھوت عفریت چڑیلیں خواری
ناچتی گاتی تھرکتی ہنستی
قہقہے گالیاں لڑتی ڈستی
ہڈیاں چوستی یرقان زدہ لاشوں کی
پنجوں میں تار کفن
شعلہ دہن
بستی کی بستیاں جھلساتی ہوئی
شہر پہنچیں تو کھلے در پائے
چڑھ گئیں سیڑھیوں پر کھٹ کھٹ کھٹ
بدن ہونے لگے پٹ
لے لیا دانتوں میں شریانوں کو
ویمپائر کی طرح
زندگی کون سی منزل پہ رکی ہے آ کر
آگے چلتی بھی نہیں
راہ بدلتی بھی نہیں
مسئلہ یہ ہے کہ اب اس میں پہل کون کرے
آسماں دور
زمیں چور
کہاں جائے کوئی
کاش ایسے میں چلا آئے کوئی
دل آشفتہ کو بہلائے کوئی بتلائے کوئی
کس طرح پھوٹتی ہے خشک شجر میں کونپل
نظم
سفر ناتمام
وامق جونپوری