EN हिंदी
صدا بہ صحرا | شیح شیری
sada ba-sahra

نظم

صدا بہ صحرا

غالب احمد

;

یہ دور دور مرادوں کے ریتیلے ٹیلے
سرک سرک کے جو دامن بدلتے رہتے ہیں

یہ مردہ اونٹ جو صحرا کے زرد رنگوں میں
کسی نے دشت طلب میں سجا کے رکھے ہیں

کہ جو بھی بھیس بدل کر ادھر روانہ ہو
پلٹ ہی جائے وہ لے کر پھٹی پھٹی آنکھیں

یہ کس کی وادی ہے یہ اونٹ کس کے ہیں
یہ کون زرد نگارش کا اتنا شائق ہے

یہ کون قیس ہے کس دشت کے سراب میں ہے
یہ کس کا خواب ہے کس حسن کے عذاب میں ہے

جنوں میں ڈوب کے دل نے پکارا نام اپنا
جھٹک کے سر کو تمنا نے چیخ دہرائی

خیال خواب کے دامن میں چونک چونک اٹھا
یہ میرا نام تھا دل کا یا میری لیلیٰ کا

مری تمنا تھی دل کی یا میری لیلیٰ کی
یہ چیخ سر کی جھٹک اور خواب کس کے تھے

پلٹ ہی جاؤ نہ لے کر پھٹی پھٹی آنکھیں