EN हिंदी
سچ | شیح شیری
sach

نظم

سچ

ابرارالحسن

;

ازل سے اس کی سلطنت کو کوئی مانتا نہیں
جو دل میں آ کے جھانک لے تو جیسے جانتا نہیں

پر اب تو مان جھوٹ کی نفی نہ کر
نفی نہ کر کہ جھوٹ ہے

سچ کی ساری سلطنت کا واسطہ
نفی نہ کر کہ جھوٹ ہے

نطق پر خطاب میں
آب و خاک و باد میں

معاملے مکالمے تکلفات و حادثے
میں دوست یار مہرباں

کھیت کھیت رینگتا ہے جھوٹ بہتے آب میں
سینچتا ہے نور جھوٹ شہر کے مکان میں

بھاگتا ہے تیز تیز جھوٹ تیز کار میں
جھوٹ کالے حرف کی بلند بانگ سرخیاں

جھوٹ عہد کہنہ کی دبیز لن ترانیاں
جھوٹ اس لئے کہ سچ کا دور تک پتہ نہیں

یہ تیرا صرف وہم ہے میں سچ سے بد گماں نہیں
ہر اک نقیب سچ کا لہکے جھوٹ کے الاؤ میں

گماں کو خشت کر کے سچ کی نیو ڈالتا رہا ہے
جھوٹ کی نفی نہ کر

کہ سچ کی دودھیا لکیر دور جھلملا سکے