نظر اٹھاؤں
تو سنگ مرمر کی کور بے حس
سفید آنکھیں
نظر جھکاؤں تو شیر قالین گھورتا ہے
مرے لیے اس محل میں آسودگی نہیں ہے
کوئی مجھے ان سفید پتھر کے گنبدوں سے رہا کرائے
میں اک صدا ہوں
مگر یہاں گنگ ہو گیا ہوں
مرے لیے تو
انہیں درختوں کے سبز گنبد میں شانتی تھی
جہاں مری بات گونجتی تھی
نظم
سبز سے سفید میں آنے کا غم
خورشید رضوی