صبا کے ہاتھ پیلے ہو گئے
میں ساعت سرشار میں
لاکھوں دعائیں
خوبصورت آرزوئیں
پیش کرتا ہوں
صبا ممنون ہے
لیکن زباں ہے
کچھ نہیں کہتی
صبا اب روز و شب
دیوار و در تن پر سجاتی ہے
اب آنچل چھت کا سر پر اوڑھتی ہے
لمس فرش مرمریں سے
پاؤں کی تزئین کرتی ہے
وہ کہساروں شگفتہ وادیوں جھرنوں
چمکتے نیلگوں آکاش کے
نغمے نہیں گاتی
صبا اب لالہ و گل کی طرف شاید نہیں آتی
صبا شبنم ادا تصویر پا بستہ
در روزن میں آویزاں
حسیں نازک بدن
روشن منور ساحلوں پر اب نہیں بہتی
صبا لب کھولتی ہے مسکراتی ہے
صبا سرگوشیوں میں
اب کسی سے کچھ نہیں کہتی
نظم
صبا کے ہاتھ پیلے ہو گئے
بلراج کومل