ساری عمر گنوا دی ہم نے
پر اتنی سی بات بھی ہم نہ جان سکے
کھڑکی کا پٹ کھلتے ہی جو
لش لش کرتا
ایک چمکتا منظر ہم کو دکھتا ہے
کیا وہ منظر
کھڑکی کی چوکھٹ سے باہر
سبز پہاڑی کے قدموں میں
اک شفاف ندی سے چمٹے
پتھر پر چپ چاپ کھڑے
اک پیکر کا گم صم منظر ہے
جس کو کھڑکی کے کھلنے نہ کھلنے سے
کچھ غرض نہیں ہے
یا ہم
کھڑکی کے اندر کا منظر دیکھ رہے ہیں
ساری عمر گنوا دی ہم نے
نظم
ساری عمر گنوا دی ہم نے
وزیر آغا