EN हिंदी
سانپ | شیح شیری
sanp

نظم

سانپ

ذیشان ساحل

;

ایک سانپ کو
میں نے تتلی بنا دیا

اور ایک کانٹے کو
تبدیل کر دیا پھول میں

بند گلی کے آخری سرے پر
جو دیوار تھی

میں نے اسے
شہر کی طرف کھلنے والا

دروازہ بنا دیا
زہر کے دریا کو

میں نے رکھ دیا
شہد کی بوتل میں

اور چھپا دیا
اس کی نظروں سے بھی

اس کی تصویر کو
جسے میں اپنا آئینہ سمجھتا تھا

اس کے بعد
جب وہ آئی اور دہرانے لگی

وہ لفظ
جو کبھی اس کے لیے بے اثر تھا

آج اس ایک لفظ کا
مجھ پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا

میں تو
اسے پہچان ہی نہ سکا

یاد بھی نہ رکھ سکا
سانپ کو