ایک سپیرا میری گلی میں آ نکلا کل شام
اس کی آنکھیں چمکیلی تھیں اور آنکھیں سنگین
لیکن رس میں بھیگے نغمے چھیڑ رہی تھی بین
نغمے جن میں جاگ رہے تھے دنیا کے آلام
اس کے گلے میں سانپ پڑا تھا جیسے کوئی ہار
اس نے گلے سے سانپ اتارا اور کہا کہ جھوم
مٹی چاٹ کے پیار سے بابو جی کے پاؤں چوم
سانپ نے مجھ کو جھوم کے چومنا چاہا جو اک بار
میں گھبرا کے پیچھے ہٹا اور میں نے کہا نادان!
سانپ کہ پتھر توڑ کے رکھ دے جس کا زہری وار
سانپ کو کون سکھا سکتا ہے انسانوں سے پیار
اس کو نیکی اور بدی کی کیا ہوگی پہچان
ہنس کے سپیرا بولا بابو مجھ سے ہو گئی بھول
تم جو اک دوجے کے گلے پر رکھتے ہو تلوار
تم شہروں کے باسی کیا سمجھوگے کیا ہے پیار
میرے لیے یہ سانپ ہیں میرے سندر بن کے پھول
ماتھے پر یہ کنٹھا دیکھو جیسے کوئی تاج
یہ راجہ ہیں پر نہیں پیتے کمزوروں کا خون
یہ نہیں مارتے اک دوجے کے خیموں پر شب خون
یہ نہیں لوٹتے اپنی ماؤں اور بہنوں کی لاج
یہ نہیں ڈسنے والے ان پر ڈال کے دیکھو ہاتھ
خوش قسمت ہو اور تمہارے اچھے ہیں حالات
تم انسان گزیدہ ہو کر سمجھو گے یہ بات
انسانوں کا ساتھ برا ہے یا سانپوں کا ساتھ
نظم
سانپ سپیرا اور میں
صہبا اختر