سانپ! آ کاٹ مجھے ایڑی پر
میں تجھے دانۂ گندم کی قسم دیتا ہوں
شہر کے اونچے مکانوں پہ چمکتا سورج
مجھ سے کہتا ہے کہ تو ننگا ہے
اور مری روح مجھے کہتی ہے
جسم کو ڈھانک مری شہر میں تذلیل نہ کر
مجھ کو احساس ہے میں ننگا ہوں
صبح کے نور کے مانند مجھے
کوئی ملبوس ازل سے نہ ملا
سبز پتوں نے سہارا نہ دیا
سانپ! آ کاٹ مجھے
بخش دے موت کا ملبوس مجھے
دیکھ اب جسم مرا
دن کی گرمی سے جھلستا ہے کبھی
اور پھر رات کی سردی سے ٹھٹھرتا ہے کبھی
اور مری روح مجھے کہتی ہے
جسم کو ڈھانک مری شہر میں تذلیل نہ کر
سانپ! آ کاٹ مجھے ایڑی پر
اور مرے جسم کو گھلتا ہوا تانبا کر دے
صبح کا نور جسے دیکھ کے شرما جائے
اور مری روح کہے
اب تجھے موت نہیں آئے گی
میں تجھے دانۂ گندم کی قسم دیتا ہوں
نظم
سانپ! آ کاٹ مجھے
گوہر نوشاہی