EN हिंदी
سالگرہ کی رات | شیح شیری
sal-girah ki raat

نظم

سالگرہ کی رات

محبوب خزاں

;

وقت کی بات ہے ہر غنچۂ سربستہ مگر
وقت کیا چیز ہے بے پیمانۂ ساختہ ہے

یہ شب و روز جوانی یہ مہ و سال رواں
روح کیوں جسم کے آگے سپر انداختہ ہے

شاخ در شاخ نظر آتی ہے جینے کی امنگ
چور کی طرح سرکتی ہے رگوں میں کوئی آگ

سوچنے کے لیے شاید یہ مہ و سال نہیں
اے مرے دیدۂ بے خواب محبت سے نہ بھاگ

حسن کی آگ غنیمت ہے کہ اس سے پہلے
رگ ایام تھی اک جوئے فسردہ سر شام

سب اسی آگ کا ایندھن ہیں گزرنے والے
ایک ہی لرزش صد رنگ کا پرتو ہے تمام