EN हिंदी
سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا | شیح شیری
sae ki pisli se nikla hai jism tera

نظم

سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا

عادل منصوری

;

سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا
بوسوں کا گیلا پن لفظوں کے ہونٹوں پر

آوازیں چلتی ہیں ہاتھوں میں ہاتھ لیے
کانٹوں نے لمحوں کے خوابوں کو نوچ لیا

ہاتھوں میں تلواریں لے کر وہ آئے تھے
آئے تھے کاٹ گئے معنی کے ناک اور کان

ٹوٹا ہے خون کہیں ڈوبا ہے عکس کہیں
صحرا کی چھاتی پر سورج کا رقص کہیں

سائے کی پسلی سے نکلا ہے جسم ترا