آج تم تک پہنچ کر
تمہاری آنکھوں کے آئینوں میں جھانک کر
خود کو ٹٹولا
تو معلوم ہوا کہ
میرا جسم تو تم تک آتے آتے
کہیں بیچ رستے میں گم ہو گیا تھا
میرا دل!!
کسی اور سینے میں دبا دیا گیا تھا
مرے ہونٹ
سرخیوں کی تہوں کے نیچے
پڑے پڑے سیاہ ہو چکے تھے
میری خوشبو
جو میں تمہارے لیے لا رہی تھی
کسی پچھلے جھونکے نے
اپنے جسم میں ٹانک لی تھی
میرا خواب
اپنی رات کی کوکھ میں
غلطی سے کسی اور کے لیے
صبح کا پہلا حرف رکھ چکا تھا
میرے قلم کی روشنائی کو
لفظ کا ایک سمندر پی چکا تھا
اور میری آنکھوں کی پتلیوں میں ناچتی روشنی کی
کسی سراب سے دوستی ہو چکی تھی
اور اب وہ شاید اسی کے ساتھ بہہ رہی ہے
سو اب تمہاری آنکھوں کے آئینوں میں
میں نہیں
صرف ایک سائے کا اضطراب
ڈولتا نظر آ رہا ہے
نظم
سائے کا اضطراب
ثروت زہرا