ساری بے معنویت ساعت آغاز میں تھی
جب ہوا گرم ہوئی
سائبانی کے لیے دھوپ میں ایک پتھر تھا
سفر آغاز کیا
رات اعصاب شکن لائی تھی بستر پہ اسے
وہ بھی دیوار بنا جس پہ گری تھی دیوار
کوئی دم بیٹھ لیے
پھر سفر آغاز کیا
دل نے چاہا تھا کہ رو لیں مگر اب کیا رونا
دوڑ کی آخری حد پر بھی کوئی روتا ہے
ہاں مگر وہ جو ابھی ساعت آغاز میں ہے
دوڑ کی آخری حد جس کے لیے راز میں ہے
نظم
ساعت آغاز کی بے معنویت
محمد انور خالد