زخموں کے انبار، در و دیوار بھی
سونے لگتے ہیں
خوشیوں کے دریا میں اتنی چوٹ لگی
کہ اب اس میں چلتے رہنا دشوار ہوا
سڑکوں پر چلتے پھرتے شاداب سے چہرے سوکھ گئے
وہ موسم جس کو آنا تھا، وہ آ بھی گیا
اور چھا بھی گیا
اشجار کے نیلے گوشوں سے اب زہر سا رستا رہتا ہے
گل زار خزاں کے شعلوں میں ہر لمحہ سلگتا رہتا ہے
اس خواب پریشاں میں کب تک
اس روح اذیت خوردہ کو تم قید رکھو گے
چھوڑ بھی دو!
اس روح اذیت خوردہ کو
نظم
روح اذیت خوردہ
پیغام آفاقی