وہ علم گر گئے جن کے سائے تلے
عشق کی اولیں سطر لکھی گئی
پھول بھیجے گئے
دشمنوں کے لئے
اب ملو بھی کہ اے روح عصر رواں
رنگ جلنے لگے
روپ ڈھلنے لگے
دوسرے پہر میں تیرہویں ضرب پر
کٹ گئے دن کے راجے کڑی دھوپ میں
شاخ تا شاخ مرجھا گئیں رات کی رانیاں
اب ملو بھی کہ اے روح عصر رواں
آنسوؤں میں سجا عکس اڑنے کو ہے
برف ہونے کو ہیں اپنی حیرانیاں
روح عصر رواں!!
روح عصر رواں!!

نظم
روح عصر رواں
فرخ یار