EN हिंदी
رشتے | شیح شیری
rishte

نظم

رشتے

مغنی تبسم

;

میں کیا جانوں کون ہے سورج کس نگری کا باسی ہے
کیسا سر چشمہ ہے جس سے جیون دھارا بہتی ہے

میں کیا جانوں کون ہے بادل کیوں آوارہ پھرتا ہے
کتنے پیڑ ہرے ہوتے ہیں کتنی کلیاں مرجھاتی ہیں

ایک نگاہ لطف سے اس کی ،اس کے ایک تغافل سے
میں کیا جانوں شب کے گہرے سناٹوں میں

کتنے تارے ٹوٹ گئے ہیں
کتنی پلکیں بھیگ چکی ہیں کتنے آنسو خشک ہوئے ہیں

صدیوں کے ملبے کو ہٹا کر دیکھو
کتنی روحیں اپنے اپنے پنجر ڈھونڈ رہی ہیں

میں کیا جانوں کیا ہے دنیا
انسانوں کی بستی ہے یا ایک سرائے فانی ہے

میں تو ابھی بستر سے اٹھا ہوں اور مری آنکھوں میں اب تک
خواب کا سارا منظر ہے

میرا پوتا چاند میں بیٹھا اپنے بیٹے سے کہتا ہے
''دیکھو وہ دھرتی ہے اس میں دادا ابا رہتے تھے''