کل اس نے پوچھ ہی ڈالا
تم آخر کون ہو میرے
ہمارے درمیاں
جو اک تعلق ہے
جو رشتہ ہے
وہ آخر کون سا ہے
نام کیا ہے
کچھ بتاؤگے
تو میں نے کہہ دیا
رشتہ وہی ہے درمیاں اپنے
جو آنکھوں کا ہے نیندوں سے
جو نیندوں کا ہے خوابوں سے
جو خوابوں کا ہے راتوں سے
جو راتوں کا اندھیروں سے
اندھیروں کا ستاروں سے
ستاروں کا فلک سے ہے
فلک کا چاند سورج سے
جو سورج چاند کا ہے اس زمیں سے
اور زمیں کا پیڑ پودوں سے
ہواؤں سے گھٹاؤں سے
گھٹاؤں کا بہاروں سے
بہاروں کا ہے پھولوں سے
جو پھولوں کا ہے خوشبو سے
جو خوشبو کا ہے بھونروں سے
جو بھونروں کا ہے کلیوں سے
جو کلیوں کا ہے کانٹوں سے
جو کانٹوں کا ہے شاخوں سے
جو شاخوں کا جڑوں سے ہے
جڑوں کا ہے جو مٹی سے
جو مٹی کا بشر سے ہے
بشر کا جو خدا سے ہے
خدا کا نیک بندوں سے
اور ان بندوں کا ایماں سے
اور ایماں کا عقیدت سے
عقیدت کا محبت سے
محبت کا دلوں سے ہے
وہی دل
جو تیرے سینہ میں ہے اور میرے سینہ میں
محبت جس کے اندر ہے
محبت کا حسیں رشتہ وہی ہے درمیاں اپنے
اب اس رشتے کو کوئی نام دینے کی ضرورت ہے
نظم
رشتہ
محسن آفتاب کیلاپوری