یہ کس جنم میں
ہم
دوبارہ ملے ہیں
یہ خط
رنگ
قد
سب مجھے جانتے ہیں
مرے لمس سے آشنا ہیں
میں بھٹکا ہوں
کتنے سرابوں میں صحراؤں میں
کئی کارواں مجھ سے آگے گئے
ان کے نقش کف پا ابھی مشتعل ہیں
ابھی دھول نے ان پہ چادر بچھائی نہیں ہے
مجھ سے پیچھے
نئے کاروانوں کی گرد اڑا رہی ہے
کچھ جیالے جواں
تازہ دم تیز رو
اور میں
وقت کی رہ گزر کا وہ تنہا مسافر
جو ہر قافلے سے الگ
رہ رووں سے الگ
اجنبی سمت
یوں چل رہا ہے
کہ اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے
تحیر سے پیدا مسرت کے آنسو لیے
اس طرح ہم ملے جیسے پہلے کبھی مل چکے تھے
کون سے کارواں سے بھٹکتی ہوئی
تم دوبارہ ادھر آ گئی ہو
تمہیں کون سی منزل زندگی کی طلب ہے
تمہاری رگوں میں بھی
میری رگوں کی طرح
کتنی صدیوں کا خوں
کتنی نسلوں کا خوں
موجزن ہے
اور یہ ساری نسلیں
شکستہ مگر اونچی دیوار کی طرح استادہ ہیں
یوں ہی کب تلک فون پر بات کرتے رہیں گے
یوں ہی فاصلہ جسم کا لمس کا
ایک رشتہ فقط صوت و آواز کا
یہ رشتہ بھی حصہ ہے گونگے سفر کا
جو کب ٹوٹ جائے
کسے یہ پتہ ہے
کاش یہ رشتۂ صوت و آواز ہی دائمی ہو
کہ گونگے سفر کے سبھی سلسلے عارضی ہیں
نظم
رشتہ گونگے سفر کا
مظہر امام