EN हिंदी
ری انکریشن | شیح شیری
reincarnation

نظم

ری انکریشن

میمونہ عباس خان

;

مرے آنگن میں بکھرے زرد پتے
مجھے ہم راز لگتے ہیں

یہ جب ہلکی ہوا کی سرسراہٹ سے لرزتے ہیں
تو یوں لگتا ہے جیسے

ان پہ کوئی بھید سا کھلنے لگا ہے
جیسے ان کو باور ہو گیا ہے

کہ خود شاخوں نے بے پروائی سے دامن چھڑایا ہے
زمیں نے بھی نگاہیں پھیر لی ہیں

انہیں معلوم ہے شاید
زمیں پیروں تلے ہی جب نہ ہو تو

جتنا مرضی سر پٹخ لیں
ٹہنیوں کو تھام لیں

بے فائدہ ہے
اب انہیں بے آسرا رہنا پڑے گا

کبھی پیروں میں آ کر چرمرانا
ہوا کے دوش پر اڑتے

بکھرتے ہی چلے جانا پڑے گا
وجود اپنا کسی گمنام گوشے میں چھپا کر رائگانی کی اذیت ان کو سہتے ہی چلے جانا پڑے گا

خیال آتا ہے
کتنی بے نشاں بے مول بے وقعت سی ان کی زندگی ہے

مگر یہ بے نشانی جن خلاؤں کو جنم دیتی ہے
انہیں بھرنے کو جیون کونپلوں سے آخر اک دن پھوٹتا ہے

یہی اک سوچ مجھ کو
اپنے آنگن میں بکھرتے چرمراتے زرد پتوں سے

بہت مانوس رکھتی ہے
بہت نزدیک رکھتی ہے