EN हिंदी
ریحان صدیقی کی یاد میں | شیح شیری
rehan-siddiqi ki yaad mein

نظم

ریحان صدیقی کی یاد میں

احمد ہمیش

;

جانے کتنے ہی راتیں ہوں گی
جانے کتنے ہی دن ہوں گے

جو تمہاری بیداری اور نیند میں
چائے کی پیالیوں میں

اور محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں
میں تمہاری آواز تو اب بھی سن رہا ہوں

کئی دنوں سے میرا فون جو بند رہا
وہ اب میری روح میں کھل گیا ہے

اور ہماری روحوں کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں
کون کہتا ہے کہ تمہیں دنیا پسند نہیں آئی

تو تم نے دنیا چھوڑ دی
ابھی تو تشکیل کے کئی صفحات کی ترتیب باقی ہے

ابھی تو تمہیں بہتوں کے ضمیر پر پڑے ہوئے
پردے اٹھانے ہیں

ابھی تو شیبہ اوون میں جو کیک تیار کر رہی ہے
اسے کھانا باقی ہے

ابھی تو انجلاء تم سے میری جو شکایت کرنے والی ہے
کہ میں نے یہ نہیں کیا

میں نے وہ نہیں کیا
گویا تمہارے مشوروں پر

نئے سرے سے کان دھرنا ہے
ابھی تو کئی کام باقی ہیں

بھابھی کو بنارسی سوئیاں تیار کرنی ہیں
ابھی تو تاثیر توصیف اور شرجیل

تمہاری آواز سننے کے منتظر ہیں
ابھی تو محبوب خزاںؔ تمہیں ابدالاباد کے لئے

سگریٹ چھوڑنے کا مشورہ دینے والے ہیں
میں تمہاری آواز تو اب بھی سن رہا ہوں

باغ و بہار آدمی تو کبھی نہیں مرتا
تمہاری باغ و بہار آواز تو میں اب بھی سن رہا ہوں