جہاں پہ میں ہوں
بس ایک کہرا زدہ فضا ہے
جدھر بھی دیکھو سفید چادر ٹنگی ہوئی ہے
نہیں ہے کوئی زمین ایسی کہ جس پہ میں اپنے پاؤں رکھوں
بلند و بالا پہاڑوں سے
ہزاروں پتھر لڑھک رہے ہیں
اور آندھیاں سیٹیاں بجاتی گزر رہی ہیں
قدیم بھوری پہاڑیوں سے وہ کارواں بھی تو ٹوٹ آیا
تلاش میں جو نہ جانے کس کی بہت دنوں سے بھٹک رہا تھا
وہ گرز بردار سب فرشتے بھی مر چکے ہیں
جو خیر و شر پر نگاہ رکھنے کے واسطے تھے
کوئی بھی میزان نیک و بد کی نہیں ہے قائم
یہاں اب اپنے قیام کی کوئی ساعت معتبر نہیں ہے
اٹھاؤ ساحل سے کشتیوں کو
بہاؤ کا وقت ہو گیا ہے
نظم
روانگی
خالق عبداللہ