گرمیٔ خورشید کا
ایک نقش مضطرب
روزن دیوار شب
خوش ادا پر کار ہے
نور سے سرشار ہے
سیل موج شہر میں
وہ اترنے کو ہے اب
خیر مقدم کے لیے
جاگتے ہیں چشم و لب
میری خاطر شہر میں
وہ فروزاں جسم و جاں
وہ درخشاں پیرہن
وہ سنہرا بانکپن
شعلۂ تنویر ہے
خون میں تحلیل ہے
صبح کی تصویر ہے
اس کا روئے شادماں
حشر کے ہنگام تک
میرے دل میں جاوداں
نظم
روزن دیوار شب
بلراج کومل