روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو
گم ہے اندیشۂ امروز کی ظلمت میں حیات
زہرہ و ماہ سے محروم ہے جذبات کی رات
زعفراں زار بہشتوں میں بھی اڑتا ہے غبار
خلد بردوش فضائیں ہیں جہنم بکنار
تشنگی صبح کی، معمورۂ ہستی میں ہے عام
رکھ دو ظلمت کی ہتھیلی پہ کوئی نور کا جام
اور اس غم کے اندھیرے کو نہ انگیز کرو
روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو
در و دیوار پہ سائے کی مسلسل پیکار
اژدھے لڑتے ہوئے جیسے میان کہسار
اور محراب شکستہ میں پرانی قندیل
بے پر و بال سی آندھی کی ستائی ہوئی چیل
خاک پر خون میں ڈوبے ہوئے قدموں کے نشاں
صحن میں کشتہ چراغوں کی چتاؤں کا دھواں
ان چتاؤں کو سمن پوش و سمن ریز کرو
روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو
روشنی راہ میں باقی ہے نہ کاشانوں میں
قمقمے ٹوٹے ہوئے ڈھیر ہیں ویرانوں میں
رات ہے یا کہ سیاہی کا کوئی کوہ بلند
کب سحر پھینکے گی اس کوہ پہ کرنوں کی کمند
یاس نے زیست کے احساس کو گھیرا کیوں ہے
گھٹ گیا دم یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا کیوں ہے
ساتھیوں شیشۂ گل نار کو گل بیز کرو
روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو،
جوئے خوں چشم تمنا سے رواں ہے یہ کیوں
زندگی سوئے تبسم نگراں ہے یہ کیوں
روح انساں کو ملے ظلمت دوراں سے نجات
سج دو مغموم فضاؤں میں چراغوں کی برات
سوگوارانہ سہی جشن منانا ہوگا
کانپتے ہاتھوں سے یہ جام اٹھانا ہوگا
تھام کر دل کو اٹھو عزم طرب خیز کرو
روشنی تیز کرو، تیز کرو، تیز کرو
نظم
روشنی تیز کرو
شمیم کرہانی