دلوں میں درد دماغوں میں کشمکش کا دھواں
جبیں پہ خاک نگاہوں میں غم کی تاریکی
فریب کھائے ہیں ہم نے فریب کھاتے ہیں
فریب دے نہ سکے ہم مگر زمانے کو
ہمیں تو فکر یہی ہے کہ کون آئے گا
ہمارے بعد لہو کے دیے جلانے کو
وہ زندگی جو سبھی کو عزیز ہوتی ہے
ہم اہل غم کے نہ یوں پاس آ سکے گی کبھی
قدم قدم پہ جنہیں جستجو ہو چاہت کی
انہیں رفیق نہ دنیا بنا سکے گی کبھی
خلا میں ڈھونڈ رہے ہیں ہم اک مسیحا کو
ہتھیلیوں پہ عقیدت کے آفتاب لیے
شعور و ہوش کی دنیا ہے ایک مدت سے
نظر نظر میں نئی روشنی کے خواب لیے
وسیع دشت تمنا کے سرخ سینے پر
سلگتے درد کا آنچل نہ سرد ہوگا کبھی
چراغ عمر بجھانا تو خیر ممکن ہے
چراغ جہد مسلسل نہ سرد ہوگا کبھی
دھواں اگلتے اندھیروں میں روشنی بھر دیں
رگوں میں خون کی گردش کو تیز تر کر دیں
نظم
روشنی روشنی کے خواب
چندر بھان خیال