کوئی شاخ تشنہ و خشک جس سے ہری نہ ہو وہ سحاب کیا
جو چھلک کے رنگ نہ بھر سکے رگ و ریشہ میں وہ شباب کیا
دل گم شدہ کو میں ڈھونڈنے کہیں شب کو محو جنوں چلا
تو صدا سی آئی یہ سینہ سے کہ تلاش خانہ خراب کیا
طرب آفریں سہی رت کبھی ملے بار سوز کو ساز میں
نہ تنوع اتنا بھی جس کی طرز نوا میں ہو وہ رباب کیا
نہیں پھول پھول مہک بغیر کھلے بلا سے کھلا کرے
ہو مشام تازہ نہ جس کی روح شمیم سے وہ گلاب کیا
شکنیں یہ شرم نہاں کی ہیں نظر آ رہا ہے جو پردہ سا
تہوں میں اگر نہ حیائے جلوہ دبی ہوئی تو حجاب کیا
جو لکھے تھے شوق سے خط انہیں فقط اتنا ان کا جواب تھا
کہ جواب ایسی جسارتوں کا سکوت ہو تو جواب کیا
جو پلائی ہے تو یہ مستئ مے عیش رات کا ساتھ دے
ہو دراز تشنہ نہ جس کا شمع کے بجھنے تک وہ شراب کیا
نظم
رشحات
م حسن لطیفی