EN हिंदी
رقاصۂ اوہام | شیح شیری
raqqasa-e-auham

نظم

رقاصۂ اوہام

بیباک بھوجپوری

;

اصنام‌ امارت کا پرستار ہے عالم
سرمایۂ غفلت کا خریدار ہے عالم

کٹتی ہیں سدا صدق مقالوں کی زبانیں
حق گو کے لئے عرصہ گہ دار ہے عالم

درویش خدا نان شبینہ کو ہے محتاج
گو نعمت و اکرام کا بازار ہے عالم

شاداب ہے دن رات غریبوں کے لہو سے
ارباب زر و سیم کا گلزار ہے عالم

خود زاہد صد سالہ گرفتار ہے جس میں
وہ حلقۂ تزویر و فسوں زار ہے عالم

ہر گام پہ ہے شعبدہ نفس کا پھندا
رقاصۂ اوہام کا دربار ہے عالم

دل خضر کا ہے نغمۂ بے معنی پہ رقصاں
تہذیب کے پازیب کا جھنکار ہے عالم

اس قحبۂ بازاری سے رکھو نہ توقع
احسان فراموش و زیاں کار ہے عالم

سر رکھتا ہے آوارہ مزاجوں کے قدم پر
یہ حق میں وفاداروں کے تلوار ہے عالم

شاعر کے نہیں سینہ میں گنجائش تکیہ
مانا کہ بہت دل کش‌ و پرکار ہے عالم

اس عہد پر آشوب میں ببیاکؔ نہ پوچھو
کس درجہ جفا کش و ستم گار ہے عالم