تم میری مضبوط سی دیوار ہو
میرے کمزور پلوں کی جلد سی
تبھی ہر موسم سے بے خوف بچایا ہے اسے
جلد سخت اور وہی رنگین سی رہے
پچھلے برس یاد ہے
کتنی امس تھی
ہم گلنے سے لگے تھے آنسوؤں سے یا بدلے
موسم سے
شاید دونوں سے
جانتی ہوں جلد کی فطرت
کسی بندھی پختہ کونے روندنے کے بعد
بھی مضبوط سی
لیکن اب صفحے گلنے لگے
بے وقت موسم سے
سنبھال سکو تو مڑائی کر لو پھر سے
اکثر پرانی جلد نئے صفحوں میں بے معانی بے رونق سی معلوم ہوتی ہے
صفحے لگدی سے گل جائے کہیں

نظم
رنگین جلد
دوُیہ مہیشوری