شام و سحر کے منظر گہری اداسیوں کے
پردے گرا رہے ہیں
واقف تو تھیں ہمیشہ ان سے میری نگاہیں
اوڑھے نہ تھیں فضائیں
یوں کہر کی عبائیں
کچھ تھا جو کھو گیا ہے?
شاخ نظر پے دہکا
برگ حنا کا شعلہ
یوں کانپتا ہے جیسے
مٹتا کوئی ہیولیٰ
شام و سحر سے کوئی مفرور ہو گیا ہے؟
سینے میں میں تقاطر
بوندوں کا سن رہا ہوں
اک خواب بن رہا ہوں
اس میں کسے بلانے؟
بے نام آرزو کا یہ راز کون جانے
نظم
راز
آصف رضا