سرد میدانوں پہ شبنم سخت
سکڑی شاہ راہوں منجمد گلیوں پہ
جالا نیند کا
مصروف لوگوں بے ارادہ گھومتے آوارہ
کا ہجوم بے دماغ اب تھم گیا ہے
رنڈیوں زنخوں اچکوں جیب کتروں لوطیوں
کی فوج استعمال کردہ جسم کے مانند ڈھیلی
پڑ گئی ہے
سنسناتی روشنی ہواؤں کی پھسلتی
گود میں چپ
اونگھتی ہے فرش اور دیوار و در
فٹ پاتھ
کھمبے
دھندلی محرابیں
دکانوں کے سیہ ویران زینے
سب کے ننگے جسم میں شب
نم ہوا کی سوئیاں بے خوف
اترتی کودتی دھومیں مچاتی ہیں
کچھ شکستہ تختوں کے پیچھے کئی
معصوم جانیں ہیں
خواب کم خوابی میں لرزاں
بال و پر میں سرد نشتر
بانس کی ہلکی اکہری بے حفاظت
ٹوکری میں
درجنوں مجبور طائر
زیر پر منقار منہ ڈھانپے خموشی کے سمندر بے نشاں میں
غرق بازو بستہ چپ
مخلوق خدا جو گول کالی گہری آنکھوں کے
نہ جانے کون سے منظر میں گم ہے
نظم
رات شہر اور اس کے بچے
شمس الرحمن فاروقی