EN हिंदी
راستے | شیح شیری
raste

نظم

راستے

زہرا نگاہ

;

اب تلک ان نگاہوں میں محفوظ ہیں
سیدھے سادے وہ ویران سے راستے

اپنے ہم راز اپنے شناسا
اپنے دکھ اپنے سکھ دونوں پہچانتے

اونگھتے جاگتے ٹھہرتے بھاگتے
بھیگے بھیگے وہ حیران سے راستے

دیکھتے دیکھتے ایک پل بن گیا
اور سمندر کا پانی سمٹ کر سمندر سے پھر مل گیا

دھوپ سے تپ کے مٹی کا گیلا بدن جاگ اٹھا تن گیا
گھر ہمکنے لگے لوگ بسنے لگے

رنگ لو دے اٹھے پھول ہنسنے لگے
اب کہیں کوئی تنہا سڑک کوئی ویران کونا ابھرتا نہیں

کوئی دل دار سایہ بلاتا نہیں کوئی غم خوار رستہ نکلتا نہیں