EN हिंदी
راکھ | شیح شیری
rakh

نظم

راکھ

نریش کمار شاد

;

نہ جانے کب سے یونہی دل شکستہ بیٹھی ہوں
اداس چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں لئے

گزرنے والی ہے رات اور میری آنکھوں میں
جلا رہی ہے تری یاد آنسوؤں کے دیئے

مرا خیال تھا ان زرنگار محلوں میں
وہ دل کشی ہے کہ میں تجھ کو بھول جاؤں گی

نشاط تازہ کے احساس کی شعاعوں سے
شباب و حسن کی راہوں کو جگمگاؤں گی

مگر خبر نہ تھی یہ شوخ و شنگ ہنگامے
مری جوان امیدوں کا حسن لوٹیں گے

سنہرے خواب خزاں دیدہ پتیوں کی طرح
اجڑا اجڑ کے بڑی حسرتوں سے ٹوٹیں گے

میں سوچتی ہوں کہ اک جسم کے پجاری کو
مری وفا نے وفا کا سہاگ کیوں سمجھا

ہوس کے ساز پہ گائے ہوئے ترانے کو
دھڑکتے دل کی محبت کا راگ کیوں سمجھا

یہ سیم و زر کی بہاروں کا دور سرمستی
مری فسردگیٔ روح کو نہ راس آیا

تھکی تھکی سی جوانی بجھی بجھی سی حیات
میں سوچتی ہوں تجھے کھو کے میں نے کیا پایا

یہ ٹھیک ہے کہ ترا پیار سیم پوش نہ تھا
وفا شناس تھا لیکن وفا فروش نہ تھا