(تھرتھراتا ہوا احساس کے غم خانے میں
نرگسی آنکھوں کا معصوم سا شکوا دن رات
زیست کے ساتھ رہا کرتا ہے سائے کی طرح
چند اترے ہوئے چہروں کا تقاضا دن رات)
شام ہوتی ہے تو روتی ہیں ننداسی آنکھیں
لوریاں روٹھ گئیں پیار بھری بات گئی
صبح آتی ہے تو کہتی ہیں نگاہیں اٹھ کر
کس لیے دن کا اجالا ہوا کیوں رات گئی)
(روشنی لائے جو کوئی تو کہاں سے لائے
شام غم بھول گئی صبح خوشی کا رستہ
کھوئی کھوئی سی نگاہوں میں چمک ہے پھر بھی
اب بھی تکتا ہے کوئی جیسے کسی کا رستہ
پاؤں کانٹوں میں ہیں تاروں پہ نظر ہے اے دوست)
نظم
راہ گزر
شمیم کرہانی