EN हिंदी
قرۃالعین طاہرہؔ کے لیے ایک نظم | شیح شیری
qurrat-ul-ain-tahira ke liye ek nazm

نظم

قرۃالعین طاہرہؔ کے لیے ایک نظم

کوثر محمود

;

اے قتیل حرف لا
اے ماہ‌ قزویں سن

ترے اقبال کا مرقد چراغ عصر تھا
اب طاق نسیاں میں سجایا جا چکا ہے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کا شعر
اک خواب تھا شاید بھلایا جا چکا ہے

اور ہماری لوک دانش کا ہمارے مدرسوں میں داخلہ ممنوع ٹھہرا ہے
زر خالص لٹایا جا رہا ہے کوئلوں پر سخت پہرا ہے

پرانے معبدوں کے طاقچوں میں گرد اڑتی ہے
گلستاں بوستاں و بلبل شیراز بھی یاں اجنبی ٹھہرے

مجھے اب کون پوچھے گا
قتیل حرف لا

کائناتی اشاریہ
وہاں جو کچھ ہوا ہے روشنی مجھ کو بتاتی ہے

یہاں جو ہو رہا ہے روشنی تم کو بتائے گے
مگر یہ روشنی آگے بھی جائے گی

ہر اک شے کو بالآخر نور کے سانچے میں ڈھلنا ہے
ہمیں بھی دو قدم اس روشنی کے ساتھ چلنا ہے

یہ مشت خاک بھی مقدور بھر تو جگمگائے گی
مشیت مسکرائے گی

مگر یہ روشنی آگے بھی جائے گی