یہ چڑیا جو پنکھے سے ٹکرا گئی ہے
اسے تو فقط آشیانہ بنانے کی دھن تھی
اسے وقت کی پیٹھ سے لاکھ دو لاکھ سالوں کے گرنے کا اندازہ کب تھا
اسے کیا خبر تھی
وہ سر سبز ایام مرجھا چکے ہیں
وہ انساں سے پہلے کے شاداب جنگل
جہاں گھونسلوں اور اڑانوں کے مابین
دھاتوں کی پراں فصلیں نہیں تھیں
عقابوں کے پر آج بھی سرسرائیں
تو معصوم چڑیوں کے دل سہم جائیں
مگر ان کو معلوم کیا ہے
کہ قرب قیامت کے آثار پیدا ہیں
بے جان لوہے کو پر لگ گئے ہیں

نظم
قرب قیامت
خورشید رضوی