سن کے بھی چپ ہی رہا
تلخ باتیں مشک بار افغانی قہوے کے
رسیلے گھونٹ میں گھل مل گئیں
یہ حقیقت اور تھی کہ باپ دادا قصہ گو مشہور تھے
اس لیے وہ چپ رہا
تاریخ کے نقشے میں
جن شہروں کی شہرت گونجتی ہے
وہ خموشی کے اس ازلی رنگ سے ظاہر ہوئے
جس سے شناسائی نہیں ہے
اس ہجوم شور و شر کی
اس نے سوچا
یاد گاری چوک میں چاروں طرف
یہ بولتے بازار ہیں
اس لیے افسردگی میں گم کھڑے
اس بید مجنوں پر
نظر پڑتی نہیں
جو اکیلا رہ گیا ہے قصہ خوانوں میں یہاں
بے رنگ اکھڑتی چھال پر
چاقو سے کندہ نام پھیکا پڑ گیا ہے
کندہ کاری جا ملی ہے خاک سے
وقت کی غفلت نے کیا ثابت کیا
زخم کھانے اور لگانے والوں میں
کون فتح یاب ہیں
شیریں گل!
آگے سنا
کیا سبز آنکھوں میں بھی خاکی خواب ہیں
نظم
قصہ خوانی
یامین