EN हिंदी
قصہ خوانی بازار کی ایک شام | شیح شیری
qissa-KHwani bazar ki ek sham

نظم

قصہ خوانی بازار کی ایک شام

حارث خلیق

;

تساہل کی چادر لپیٹے ہوئے قصہ خوانی اک شام تھی
ہم وہاں اپنی دن بھر کی اس جان لیوا تھکن سے

نبرد آزما
خوب قہووں پہ قہوے کے پیالے لنڈھاتے رہے

اور اپنے بلند بانگ دعووں سے اور قہقہوں سے
کہیں گھونسلوں میں چھپے تھک کے سوئے ہوئے

نیم جاں طائروں کو جگاتے رہے
اور گزرے زمانے کے پیروں فقیروں کی کوئی نہ کئی کرامت سناتے رہے

(کس طرح صاحبان کرامات برزخ تو برزخ
شر انگیز زندوں کی روحیں بلانے پہ قادر

سبھی کو بد اعمالیوں سے بچاتے رہے)
پر جو یہ سب نہیں مانتے تھے

وہ نسوار کی تیز بو میں بسے
اینٹ گارے کے اک نیم پختہ تھڑے پر

بر افروختہ ہو کے انکار میں سر ہلاتے رہے
ہاں مگر وہ کہ جن کے لبوں پر

چرس اور گانجے کی اودی سی تہہ
مستقل جم گئی تھی

فقط مسکراتے رہے
اور سنگت میں موجود جو ''بچہ خوش'' تھے

وہ ہر آتے جاتے طرحدار کم عمر لڑکے کو
آنکھوں ہی آنکھوں میں پاتے رہے

پھر سب آپس میں مل کر
کراچی سے کندوز تک پیشہ کرتی ہوئی کسبیوں

ہیجڑوں اور لونڈوں کے
پر کیف قصے سناتے رہے

گدگداتے رہے
دل لبھاتے رہے