ہمیں کون بچائے گا
اگر کبھی ہماری جیبیں
خالی کرانے کی کوشش کی گئی
اگر کبھی ہماری انگلیوں کے درمیان
پنسل رکھ کر اور انہیں دبا دبا کر
کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس ہوتی
تو ہم کیا بتائیں گے
یہی کہ ہم نے کبھی چند کھوٹے سکوں
چمڑے میں چھپے تعویذ
اور کھجور کی گٹھلیوں کے سوا
زمین میں کچھ نہیں دبایا
یا یہ کہ ہماری الماری کے خانوں میں
منسوخ شدہ پاسپورٹ
چند خاندانی البموں
اور عقیق کی انگوٹھیوں کے سوا
کچھ موجود نہیں
مگر یہ ہمارا خیال ہے صرف خیال
ہمیں کچھ نہیں ہوگا
اور اگر کچھ ہوا
تو ہمارے دوست درخت ہمیں
اپنے سائے میں لے لیں گے
جن بادلوں کی تشکیل میں
ہمارے آنسو شامل ہیں
ہمیں ساتھ لے جائیں گے
اور نیچے نہیں گرنے دیں
اگر کبھی بے دھیانی کے عالم میں
ہم نیچے شہر میں گرے بھی
تو ہماری جیبوں سے
چھوٹے چھوٹے ستاروں بیر بہوٹیوں
اور بارش کے قطروں کے سوا
کچھ بر آمد نہ ہوگا
نظم
قطرے
ذیشان ساحل