EN हिंदी
قتل چراغاں | شیح شیری
qatl-e-charaghan

نظم

قتل چراغاں

شفا کجگاؤنوی

;

آج پھر قتل چراغاں کا یہ منظر دیکھو
آج پھر خاک سی اڑتی ہے چمن زاروں میں

پھوٹا پھر خون کا سوتا کہیں کوہساروں میں
آج پھر مقتل انساں پہ بڑی رونق ہے

آج پھر صورت‌ شیطاں پہ بڑی رونق ہے
کچھ دھماکوں نے جو تصویر بدل ڈالی ہے

خاک بھی خاک نہیں ہے یہاں اب لالے ہے
بن کے کون آیا ہے اب نوع بشر کا دشمن

جس کہ نفرت کا نشانہ بنے ہیں غنچہ دہن
گودیاں اجڑی ہیں جن ماؤں کی پوچھو ان سے

چونک اٹھتی ہیں وہ رہ رہ کے ہر اک دستک پہ
کونے کونے سے جو بچوں کہ صدا آتی ہے

پاگلوں کہ طرح ماں ڈھونڈتی رہ جاتی ہے
درس و تدریس کے مینار گرانے والو

ننھے معصوموں پہ ہتھیار اٹھانے والو
دے سکو گے ہمیں کیا چند سوالوں کے جواب

تم نے جو ظلم کئے کیا ہے بدل اس کا سوال
تم نے اک نعرۂ تکبیر لگایا جس دم

خوف اللہ ذرا بھی نہ ہوا دل پہ رقم
ذہن میں تیرے نہ آیا کہ ہیں بندہ اس کے

جس کے نزدیک عبادت ہے محبت سب سے
تو نے ماؤں کے جگر گوشوں کو مارا جس دم

ہاتھ کانپے نہ ترے دل نہ ہوئے کیوں پر نم
اپنے مذہب کہ عبادت کا بھرم ہے تجھ کو

درجہ پائے گا شہادت کا بھرم ہے تجھ کو
اک دفعہ پڑھ لے اگر واقعۂ کرب و بلا

جان جائے گا کے دراصل یہ اسلام ہے کیا
تو نے قرآں جو صحیح طور سے سمجھا ہوتا

آج تجھ میں بھی محبت کا سلیقہ ہوتا