قریب آؤ
اور اپنی سانسیں مرے بدن کے ترازوؤں کو ادھار دے دو
مرے بدن کے اداس گوشے
ترازوؤں کے قدیم مسکن
یہ سوچتے ہیں کہ کب پرندوں کی پھڑپھڑاہٹ سکوت کے کان میں بجے گی
بہشت موعود
اپنے سیبوں کی قاشیں
میرے بنجر قدیم ہونٹوں پہ کب دھرے گی
طلوع ہستی کا دائرہ کب مرے بدن پر محیط ہوگا
میں سرد خانوں سے آ رہا ہوں
قریب آؤ
اور اپنی سانسیں مرے بدن کے ترازوؤں کو ادھار دے دو
نظم
قریب آؤ
خالد شریف