EN हिंदी
قید میں رقص | شیح شیری
qaid mein raqs

نظم

قید میں رقص

کشور ناہید

;

سب کے لیے نا پسندیدہ اڑتی مکھی
کتنی آزادی سے میرے منہ اور میرے ہاتھوں پر بیٹھتی ہے

اور اس روزمرہ سے آزاد ہے جس میں میں قید ہوں
میں تو صبح کو گھر بھر کی خاک سمیٹتی جاتی ہوں

اور میرا چہرہ خاک پہنتا جاتا ہے
دوپہر کو دھوپ اور چولھے کی آگ

یہ دونوں مل کر وار کرتی ہیں
گردن پہ چھری اور انگارہ آنکھیں

یہ میرا شام کا روزمرہ ہے
رات بھر شوہر کی خواہش کی مشقت

میری نیند ہے
میرا اندر تمہارا زہر

ہر تین مہینے بعد نکال پھینکتا ہے
تم باپ نہیں بن سکے

میرا بھی جی نہیں کرتا کہ تم میرے بچے کے باپ بنو
مرا بدن میری خواہش کا احترام کرتا ہے

میں اپنے نیلو نیل بدن سے پیار کرتی ہوں
مگر مجھے مکھی جتنی آزادی بھی تم کہاں دے سکو گے

تم نے عورت کو مکھی بنا کر بوتل میں بند کرنا سیکھا ہے