بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں
افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سر راہ
بے گور و کفن خاک بہ سر دیکھ رہا ہوں
بچوں کا تڑپنا وہ بلکنا وہ سسکنا
ماں باپ کی مایوس نظر دیکھ رہا ہوں
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں
رحمت کا چمکنے کو ہے پھر نیر تاباں
ہونے کو ہے اس شب کی سحر دیکھ رہا ہوں
خاموش نگاہوں میں امنڈتے ہوئے جذبات
جذبات میں طوفان شرر دیکھ رہا ہوں
بیداریٔ احساس ہے ہر سمت نمایاں
بیتابئ ارباب نظر دیکھ رہا ہوں
انجام ستم اب کوئی دیکھے کہ نہ دیکھے
میں صاف ان آنکھوں سے مگر دیکھ رہا ہوں
صیاد نے لوٹا تھا عنادل کا نشیمن
صیاد کا جلتے ہوئے گھر دیکھ رہا ہوں
اک تیغ کی جنبش سی نظر آتی ہے مجھ کو
اک ہاتھ پس پردۂ در دیکھ رہا ہوں
نظم
قحط بنگال
جگر مراد آبادی