EN हिंदी
قابیل کا سایہ | شیح شیری
qabil ka saya

نظم

قابیل کا سایہ

سحر انصاری

;

خدا کے خوف سے اپنے گناہوں پر خجل ہو کر
وہ پیہم گریہ کرتا تھا

وہ اپنے بھائی کے لاشے پہ پیہم گریہ کرتا تھا
لہو آواز دیتا تھا زمیں کی خاک رسوا سے

خدا کا عرش کانپ اٹھتا تھا اس فریاد کو سن کر
برادر کش سزا پاتے تھے پتھر بن کے جیتے تھے

اور ان کے دل کی دھڑکن بند ہو جاتی تھی سینوں میں
اور ان کا خون ان کی سرد شریانوں پہ ہنستا تھا

مگر اس دور میں کوئی خدا ایسا نہیں کرتا
کہ اب شہروں کی حالت اگلے صحراؤں سے بہتر ہے

کہ اب شہروں میں مار و اژدر و کرگس نہیں ملتے
کتب خانوں میں افکار و عقائد جلوہ فرما ہیں

ہزاروں درس گاہیں داعئ اقدار انساں ہیں
سیہ سڑکوں پہ کاریں ہیں فضاؤں میں ہیں طیارے

عمارات بلند اپنے فلک پیما دریچوں سے
مکوڑوں کی طرح چلتے ہوئے جسموں کو تکتی ہیں

ہمارے شہر مامن ہیں ہمارے شہر گلشن ہیں
اب ان شہروں میں فرسودہ خدا کی کیا ضرورت ہے

خدا خاموش ہے اور خوف و غم سے نیم جاں انساں
ہوا کی لہر کو بھی موت کی آہٹ سمجھتے ہیں

کسی کو کچھ نظر آتا نہیں لیکن کوئی جذبہ
یہ چپکے چپکے کہتا ہے کہ اے ہابیل اے ہابیل

ہلاکت کے نئے سامان سے آراستہ ہو کر
گلی کوچوں میں آ پہنچا ہے پھر قابیل کا سایہ