بستر پر مٹھی بھر ہڈیاں رہ گئیں
تو مسیحا نے بتایا
اب مٹی پر زیادہ حق مٹی کا ہے
سو ہم نے مٹی پر مٹی لیپ کر اس پر ایک چراغ
کا کتبہ لکھا
رات!!! صبح تک ہوا پھونکتی پھرتی تھی
اور ستارے ہماری ہتھیلیوں پر پڑے میلے
ہوتے رہے
آنسوؤں کو صبر کا کفن کہاں سے دیں
پھول اپنی خوشبو چھوڑتا ہے ہنسی نہیں چھوڑتا
غم زدو!!! چراغ آنکھوں کو سونپ دو
کہ آنسو صرف چراغ روتا ہے
جس ہاتھ پر چراغ دھرا تھا
وہ ہاتھ ہماری چھت تھا
در و دیوار پر چھت نہ رہے
تو بادل بھی حوصلہ ہار دیتے ہیں
تمہارے آسمان پر روتے ہوئے خیال آیا
میرا آسمان بھی کتنا بوڑھا ہو گیا ہے
کچھ آنسو بچا لے میرے دوست!
نظم
پرسہ
انجم سلیمی