EN हिंदी
پل صراط | شیح شیری
pul-siraat

نظم

پل صراط

زہرا نگاہ

;

میں جس میں رہتی ہوں میرا گھر ہے
یہاں کی دیوار و در کے اندر

مری جوانی کے تانے بانے
ہر اک رگ سنگ میں رواں ہیں

یہاں پہ نکھری ہوئی سفیدی
مرے بڑھاپے کی آنے والی

سحر کا اعلان کر رہی ہے
یہاں کی چھت میرے دل سے نکلی ہوئی دعا ہے

جو بارگاہ خدا میں مقبول ہو کے سایہ کیے ہوئے ہے
یہاں کی کھڑکی یہاں کے روزن

مری ہی آنکھوں کے خواب ہیں
کچھ میں روشنی کچھ بجھے بجھے ہیں

یہاں پہ کچھ لوگ رہ چکے ہیں
یہاں پہ کچھ لوگ رہ رہے ہیں

ہمارے مابین کیا ہے ماضی کے رابطے ہیں
وہ رابطے جن پہ صرف میری گرفت محفوظ رہ گئی ہے

جبھی تو ایسا ہوا ہے اکثر
میں اپنے ہاتھوں کو خود جھٹک کر

نکل پڑی ایسے راستے پر
جو بال سے بھی مہین

تلوار کی طرح
تند و مرتعش تھا

میں کٹ کے گر جانا چاہتی تھی
بکھر کے مر جانا چاہتی تھی

مگر نجانے مجھے ہوا کیا!
بجائے اس کے کہ نیچے دیکھوں

مری ان آنکھوں نے پیچھے دیکھا
وہیں جہاں ایک گھر کھڑا تھا

وہ جس کی کھڑکی وہ جس کے روزن
مری ہی آنکھوں کے خواب تھے، کچھ میں روشنی، کچھ بجھے بجھے تھے!!