بڑی مدتوں میں مرے صحن کی میٹھی نیم ایک دم گونج اٹھی
ہری پتیوں میں کہیں کوئی باجا بجا
کوئی سر پگھل کر ہواؤں میں بہنے لگا
بڑی مدتوں میں درخت آج پھر مجھ سے کچھ کہنے سننے لگا
کوئی سر پگھل کر ہواؤں میں بہنے لگا
میں تبدیل ہونے لگا
لگا ریل کی سیٹی سن کر کوئی لومڑی چیختی ہو
لگا ہارن سن کر کہ کتوں کا دل بھونکتا ہو
لگا کارخانوں کے بھونپو گدھوں کی طرح رینگتے ہوں
لگا جیسے پریشر ککر میں غذاؤں کا دم گھٹ رہا ہو
لگا جیسے چھت پر چڑھا تیز پنکھا بہت دیر سے بڑبڑاتا چلا جا رہا ہو
اگر کوئی سر میں ہے تو بس وہی اجنبی تنہا بلبل
کہ جس نے ذرا دیر کو نیم کی ڈالیوں کو چمن زار خیامؔ نیشاپوری
کا بنا کر
مجھے اپنی پتھر جگی آتما سے ملاقات کا پھر سے موقع دیا ہے!
نظم
پل
عمیق حنفی